مہینوں کے ناموں کے بعد دنوں کے نام جو انگریزی میں رائج ہیں ان کی وجہ تسمیہ کیا ہے اور اس کے پیچھے کیا نظریہ کا فرما تھا۔اس کی معلومات اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ بالکل اسی سے ملتی جلتی کیفیت دنوں کے ہندی ناموں کی ہے جو ہم عام زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ نام ہندوؤں کے یہاں نہ صرف دیوتاؤں سے وابستہ ہیں بلکہ آج بھی ان کی زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
عربی، عبرانی اور فارسی کے نام : عربی میں دنوں کے نام نمبر شمار کے اعتبار سے ہوتے ہیں سوائے جمعہ اور سبت کے۔ ہفتہ کا پہلا دن ناموں کی ترتیب میں اتوار سے شروع ہوتا ہے۔ اوریہ نام الاحد،الاثنین،الثلاثہ، الاربعہ، الخمیس، الجمعہ اور السبت ہوتے ہیں۔جبکہ فارسی کیلنڈر میں بھی دنوں کے نام نمبر شمار کے مطابق ہیں سوائے جمعہ کے۔اس طرح گنتی اگر اتوارسے شروع کریں تویہ دن یکشنبہ ، دو شنبہ، سہ شنبہ ، چہار شنبہ، پنج شنبہ ،جمعہ اور شنبہ ہوتے ہیں ، جہاں تک یہودی یا عبرانی کیلنڈرمیں دنوں کے نام کا تعلق ہے وہاں بھی دنوں کو عربی کے انداز میں نمبر شمارکے حساب سے جانا جاتا ہے سوائے یوم السبت کے۔جیسے اتوار سے گنتی شروع کریں تویوم ریشون Yom Rishonپہلا دن،یوم شینیYom Sheiniدوسرا دن(عربی میں ثانی)،Yom Shlishiتیسرا دن (عربی ثالث) ، یوم ریوائی R’vi’i Yomچوتھا دن، یوم چامیشی Yom Chamishiپانچواں دن،یوم شیشی Yom Shishiچھٹا دن ، یوم شبّت Shabbat Yom ساتواں دن۔یوم السبت یہودیوں کے یہاں آرام کا دن تصور ہوتا ہے جبکہ عیسائیوں کے یہاں اتوار کو یہ مقام حاصل ہے۔
گریگورین کیلنڈر میں دنوں کے جو نام ہیں اور ہندی کے جو نام ہیں اس کے تعلق سے ایک ایک دن کا اجمالی جائزہ پیش بحضور ہے۔
سن ڈے ؍اتوار: انگریزی میں دنوں کے نام جو موجود ہیں یہ Hellenistic astrologyیعنی یونانی علم نجوم کے اعتبار سے سات سیاروں سے وابستہ ہیں۔یہ نام رومن تہذیب کے دوران وضع کیے گئے تھے جو مظاہر پرستی paganismکی منھ بولتی تصویر ہے۔ہفتے کا پہلادن سن ڈےSundayیعنی "سورج کا دن "ہے۔بہت سے یوروپی ممالک میں منڈے یا سوموار کو ہفتے کا پہلا دن مانا جاتا ہے۔مختلف یوروپی زبانوں میں اس کا تلفظ اور املا کچھ کچھ مختلف ہے لیکن سب کا مطلب ایک ہی یعنی سورج کادن ہے۔جبکہ جدید یونانی زبان میں اس کے لئےKyriakeنام ہے جس مطلب خداکا دن”Lord’s Day”ہوتا ہے۔یاد رہے کہ رومی تہذیب میں سورج کو دیوتاکا مقام حاصل رہا ہے۔روم کے پہلے عیسائی حکمراں Constantine Iنے 7مارچ 321عیسوی کو یہ فیصلہ نافذ کیا تھا کہ سنڈے روم کے لئے آرام کادن ہوگا۔عیسائیوں کے لئے یہ خصوصی اجتماعی عبادت ، دعا اور آرام کا دن ہے۔
ہندو مائتھالوجی۔۔۔۔۔جہاں تک ہندو مائتھالوجی کا تعلق ہے ہفتے کا ہر ایک دن کسی ایک سیارہ اور دیوتا کے نام پر ہے اور وہ اس کے لئے خاص ہوتا ہے۔ ہندی کے علاوہ دیگرہندوستانی زبانوں میں سن ڈے کے لئے اس کے مترادف اتوار، روی وار، آدتیہ واراور بھانووار کے نام ملتے ہیں۔ وار کا مطلب دن اور آدتیہ، روی،بھانو وغیرہ سوریہ یعنی سورج کے خطاب ہیں۔سوریہ ہندو جیوتش کے اعتبار سے شمسی نظام کا سب سے بڑا دیوتا ہے۔اسے” سوریہ نارائینا "بھی کہاجاتا ہے۔
من ڈے ؍سوم وار: سو م وار جسے عرف عام میں پیر کا دن بھی کہا جاتا ہے۔اس کا انگریزی نام من ڈےMondayدراصل لاطینی لفظ”dies lunae” کا ترجمہ ہے یعنی چاند کا دن”day of the Moon”۔تاریخی اعتبار سے ہفتہ کا پہلا دن اتوار ہوا کرتاتھا اور سوموار یا من ڈے کو دوسرا دن مانا جاتا تھا۔ جدید دور میں بین الاقوامی معیار ISO 8601کے مطابق یہ ہفتے کا پہلا دن قرار پایا ، مگر اب بھی بہت سے ممالک میں یہ ہفتے کا دوسرا دن ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کے یہاں من ڈے ایک مقدس دن ہوتا ہے اور اس دن ان کے لئے روزہ رکھناافضل ہے۔اس دن صبح کے وقت تورات کی عام تلاوت کی جاتی ہے۔(ہفتے میں تین دن تورات کی عام تلاوت کرنا ہوتا ہے جس میں سوموار کے علاوہ جمعرات اور سنیچر کا دن شامل ہے)خصوصی عبادت اور دعاؤں کا اہتمام ہوتا ہے۔جبکہ عیسائیوں کے یہاں بھی سوموار کی شام کو خصوصی عبادت اور دعاؤں کا رواج ہے۔
ہندی نام سوم وار کا تجزیہ کریں تو اس کا مطلب ہوتاہے سوم کا دن ۔ سوم ، چندرا یا چاند کو کہا جاتا ہے جو ہندوؤں کے لئے دیوتا کی حیثیت رکھتا ہے۔وہ اسے برہما کا بیٹا مانتے ہیں اور شیوا کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسی لئے شیوا کو خوش کرنے کے لئے اس دن برت رکھا جاتا ہے۔تاکہ کنواریوں کو اچھا جوڑا نصیب ہو۔زندگی سے بدحالی اور مصیبتیں دور ہوجائیں اورخوشحالی و دولت مندی کا دور شروع ہوجائے۔
ٹیوس ڈے ؍منگل وار: انگریزی میں ٹیوس ڈےTuesdayلاطینی لفظdies Martisکا ترجمہ ہے۔جو Norse مائتھالوجی کے مطابق سیارہ "مریخMars”سے وابستہ Tiwدیوتا سے منسوب ہے جسے T253rبھی کہا جاتا ہے،اور اس کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ یہ جنگ اورفتح کا دیوتا ہے۔اس طرح یہ "Tiw’s Day”یعنی ٹیو دیوتا کا دن کہلاتا ہے۔جاپان میں بھی اسے سیارہ مریخ سے منسوب کیا جاتا ہے اوراسے آگ کا دن ‘fire day’مانا جاتا ہے۔
ہندو مائتھالوجی کے اعتبار سے بھی منگل کا مطلب مریخ Marsہے جسے جنگ کا دیوتا اور مصیبت لانے والا مانا جاتا ہے۔ اس د ن گنیش، مہا کالی،دُرگاہ اور ہنومان کی پوجا کی جاتی ہے۔جنوبی ہندوستان کی بعض ہندو برادریوں میں ہنومان کے بجائے کارتھک، اسکندا اور مروگن کی پوجا کی جاتی ہے۔مگر عام طور پراس دن کو ہنومان سے منسوب کرتے ہیں۔گنیش اور ہنومان کی خصوصی پوجا اس عقیدے کے ساتھ کی جاتی ہے کہ منگل گرہایعنی سیارہ مریخ سے جو بھی تکلیف اور مصیبت آنے والی ہے اسے ان دونوں کے ذریعے دفع کیا جائے گا۔ہندو عقیدے کے مطابق اس دن بال کٹوانا ممنوع ہے۔( اسی لئے ہمارے علاقے میں غیر مسلموں کے سیلون اس دن بند رکھے جاتے ہیں)
وینیس ڈے ؍بدھ وار: جہاں تک قدیم رومن اور یونانی تہذیبوں کا تعلق ہے بدھ وار یا وینیس ڈے کو "dies Mercurii "یعنی سیارہ "عطارد” کا دن”day of Mercury”مانا جاتا ہے۔ Norseمائتھالوجی کے اعتبار سے یہ Wodanیا Odinنامی دیوتا کا دن ہے جو جنگ اور دشمنوں پر فتح کے لئے طاقت عطا کرتا ہے۔ اس لئے اسےWodnesdayکہا جاتا تھا جو آگے چل کر Wednesday ہو گیا۔
ہندو دیومالائی تصورات کے مطابق بھی یہ دن "بدھ” گرہا یعنی سیارہ عطاردmercuryکا دن ہے، جوکرشنا اور اس کے اوتار وٹھلا سے منسوب ایک دیوتا ہے،جسے چندرا دیوتا کا بیٹا مانا جاتا ہے۔بعض مقامات پراس دن وشنو کی بھی پوجا کی جاتی ہے۔ بدھ کا دن کسی بھی کام کی شروعات کے لئے متبرک مانا جاتا ہے۔جیوتش پر یقین رکھنے والے اس دن خیرات دینے اور سیارہ عطارد یا بدھ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ مسرت اور شادمانی ،دنیاوی مال و متاع اور عقل و فراست دینے والا دیوتاکہلاتا ہے۔ اس دن کرشنا، وشنو، گنیش اور وٹھلا کی خصوصی پوجا کی جاتی ہے۔
تھرس ڈے ؍گرو وار: ہفتے کے پانچویں دن جمعرات کوگریگورین کیلنڈر میں تھرس ڈے Thursdayجو کہا جاتا ہے اس کا مطلب Norse مائتھالوجی کے مطابق "Thor’s Day”یعنی” تھور” کا دن ہے۔ قدیم دیومالائی عقیدے کے مطابق” تھور” بادلوں کی گرج کا دیوتا ہے اور اسے سیارہ” مشتری” Jupiterسے منسوب کیا گیا ہے۔جبکہ رومن مائتھالوجی کے اعتبار سے سیارہ مشتریJupiterکو ہی آسمانوں اور بادلوں کادیوتا ماناجاتا ہے۔لاطینی زبان میں اسے Iovis Dies, یعنی مشتری کا دن "Jupiter’s Day”کہتے ہیں۔اسی طرح تقریباً تمام یوروپی زبان میں اسے تھوردیوتا سے منسوب کرتے ہوئے تھرس ڈے کا نام دیا گیا ہے۔ یہودیوں کے یہاں یہ دن متبرک ہوتا ہے اس لئے صبح کے وقت تورات کی عام تلاوت اور خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیاجاتا ہے۔
اس دن کے تعلق سے ہندو دیومالائی عقیدہ بھی قدیم رومن عقیدے سے کچھ الگ نہیں ہے۔اس لئے اسے گرو وار اور برہسپتی وارکہتے ہیں۔گرو اور برہسپتی سیارہ مشتری Jupiterکے ہی ہندو نام ہیں۔ہندو عقیدے کے مطابق یہ تمام سیاروں یا ان سے وابستہ دیوتاؤں کا گرو ہے۔اسے وشنو دیوتا سے منسوب کیا گیا ہے۔
فرائی ڈے؍ شکر وار: جمعہ کا نام فرائی ڈے جو رکھا گیا ہے وہ قدیم انگریزی کے لفظ Friged230g سے بنا ہے جس کا مطلب "day of Frige” ہوتا ہے۔ Frigeیا Friggایک دیوی ہے جسے رومن تہذیب کے دیوتا سیارہ زہرہ Venusسے منسوب کیا جاتا ہے۔جبکہ اس کے لئے لاطینی لفظ dies Veneris ہے جس مطلب سیارہ زہرہ کا دن”day of Venus” ہوتا ہے،اور دنیا بھر کی مختلف تہذیبوں میں اسی سے ملتا جلتا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ہندودیومالائی عقیدہ بھی اسے شکر گرہا یعنی Venusسے منسوب کرتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ سیارہ فطرت میں ایک راکھشس ہے اور تمام راکھشسوں کاگرو ہے۔ یہ طاقت اور شکتی کا دیوتا ہے۔اس لئے اس دن طاقت کی دیویوں جیسے مہالکشمی، درگا دیوی، اناپرانیشوری اور سنتوشی ماں کی خصوصی پوجا کی جاتی ہے۔
سیٹر ڈے ؍ سنی وار: سنیچر کو انگریزی میں جو سیٹر ڈے کہا جاتا ہے ، وہ قدیم رومن لفظSaturni dies ہے جس کا مطلب "Saturn’s Day” یعنی سیارہ "زحل” کا دن ہے ۔ بین الاقوامی معیار ISO 8601کے مطابق یہ ہفتے کا چھٹا دن ہے۔لیکن دنیا کے بڑے حصے میں اسے ساتواں یا ہفتے کا آخری دن ہی مانا جاتا ہے۔
ہندو مائتھالوجی کے مطابق بھی یہ شنی یا سنی دیوتا یعنی زحلsaturnکا دن ہے۔اسے سوریہ یعنی سورج کا بیٹا مانا جاتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ تمام سیاروں کو جو خود بھی دیوتا مانے جاتے ہیں، ان کا منصب اور ذمہ داریاں شنی دیوتا کے ذریعے سونپی گئی ہیں اور وہ ان کا منتظم اعلیٰ ہے۔شنی کو انسانوں کوان کے برے اعمال کے لئے ابتلا و آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔اس لئے ہندوؤں کے لئے یہ خوف اور وحشت کا دیوتا ہے۔عام بول چال میں مصیبت اور بدحالی کے وقت” شنی لگ جانا "بھی استعمال ہوتا ہے۔ہندو مانتے ہیں کہ شنی دیوتا کے عذاب سے ایشور جیسا دیوتا بھی بچ نہیں پایا اور چاند اور اپنے باپ سورج پر بھی اس نے عذاب نازل کیاہے جس کی وجہ سے ان کو گرہن لگتے ہیں۔لہٰذا ان کا عقیدہ ہے کہ شنی دیوتا کے عذاب سے بچنے کے لئے ہنومان کا سایہ ان پر رہنا چاہیے۔اس لئے اس دن ہنومان کی خصوصی پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ایک عالم دین کا تبصرہ: مہینوں اور دنوں سے متعلقہ شرکیہ عقائد کی نشاندہی کرنے والے مضمون کے اس سلسلے کو جہاں بہت سے دوستوں اور کچھ علماء نے معلومات افزا قرار دیتے ہوئے ستائش کی وہیں پر ہمارے قدر دان ایک نوجوان عالم دین نے سرسری تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:”شراب ایک مدت تک یونہی پڑی رہنے کے بعد اپنے آپ سرکہ بن جائے تو اس کا استعمال جائز ہوجاتا ہے۔ اگرہمارا ان عقائد کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے تو ان ناموں کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے”
اس دلیل پر میں کوئی تبصرہ اس لئے کرنا نہیں چاہتا کہ میرا مقصدصرف ان مہینوں اور ونوں کے پیچھے موجود وجہ تسمیہ اورحقائق کو سامنے لاناتھا۔اس کے استعمال پر روک لگانا یا حرام اور ناجائز قرار دینا بہرحال نہ میرا مقصد تھا اور نہ میرا منصب ہے۔ البتہ میرا یہ احساس ضرور ہے اگر کسی کو ہلکی سی بھی کراہت محسوس ہوجائے اور جس حد تک بھی ممکن ہومتبادل صورت اختیار کرلے تو یہ مستحسن بات کہی جاسکتی ہے۔
علامہ ابن قیم کا قول: مہ وسال کے تعلق سے اس تفصیلی بحث کا اختتام میں علامہ ابن قیم علیہ الرحمہ کے اس قول پر کرنا چاہوں گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ مہ و سال کی حیثیت ایک درخت کی سی ہے۔مہینوں کی مثال اس درخت کی بڑی بڑی شاخوں جیسی ہے۔دنوں کی حیثیت اس کی چھوٹی ٹہنیوں کی سی ہے جبکہ وقت اور لمحات کی حیثیت اس کے برگ وبار جیسی ہے۔اور انسان کی سانسیں اس درخت کے پھلوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔لہٰذا جس کسی کی سانسیں اپنے رب کی اطاعت میں گزریں گی وہ مہ وسال کے اس درخت کے میٹھے اور مفید پھلوں کے مانندہے اور جو سانسیں سرکشی اور نافرمانی میں گزرجائیں وہ اس درخت کے کڑوے پھل ہونگے۔
اللہ کرے کہ ہماری زندگی کے شب وروز اور مہ و سال اپنے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اس طرح گزریں کہ ہمارے حصے میں میٹھے اور رسیلے پھلوں کے
Comments
Post a Comment