Skip to main content

Posts

Showing posts from October, 2023

دنیا میں جو چاہے کرتے رھو لیکن کبھی ماں کے ادب میں کمی نہ کرو

 ابا جی مارنے کے بہت شوقین تھے . ''باپ کی طرف پاؤں کر کے بیٹھتا ہے '' ایک تھپڑ .  ''کھانے میں اتنی دیر لگا دی '' پھر ایک تھپڑ ۔  سارے دن میں کتنے ھی تھپڑ کھانے کے موقع آتے رہتے . اور تو اور ابا جی پڑھے لکھے بھی نہیں تھے. جو سکول میں پڑھ کر آتا, گھر آ کر ابا جی کو پڑھانا میری ذمہ داری تھی . ابا جی کو سبق یاد نہ ھوتا تو بھی دو تھپڑ مجھے ھی پڑتے '' خود کچھ سیکھ کر آئے گا تو باپ کو سکھائے گا ناں '' دادی اماں بتاتی تھیں کہ ابا جی بچپن سے بہت نالائق بچے تھے. کتنی کوشش کر لی لیکن پڑھ کر نہ دیا. ابا جی کو دادی کی بات پر بھی غصہ آتا لیکن ماں تھیں کچھ کہہ نہ پاتے تو مجھے ہی ایک تھپڑ لگا دیتے.   " چل نکل یہاں سے بے غیرت, باپ کی برائیاں کرنے میں لگا ہے. " ابا جی کے اس رویےکی بناء پر اماں میرا بہت خیال رکھتیں.  " ابا جی جب مجھے مارتے اماں بچانے آ جاتیں,،   یا غصے میں '' غلطی اپنی ہے بلا وجہ بچے کے پیچھے پڑے ھیں-''  ہر بار ابا جی مجھے مارتے تو اماں بچانے آ جاتیں .ایک دن میں نے سو چا ابا مارتے ھیں تو اماں بچاتی ھیں جب اماں

کیاآپ جانتے ہیں.

 کیاآپ جانتے ہیں کہ  انسان کے اب تک کاایجاد کردہ سب سے طاقتور ہتھیار کونسا ہے؟  یہ مت سوچیں کہ یہ ایٹم یا ہائیڈروجن ہے۔ یہ بڑاھتھیار موبائل فون ہے۔  موبائل فون ایک ایسی طاقت ہے جسے کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ یہ اتنا طاقتور ہے کہ:  1- اس نے لینڈ لائن فون منقطع کر دیا  2- اس نے ٹی وی کو مار ڈالا  3- اس نے کمپیوٹر کو ہٹا دیا  4- اس نے گھڑی کو گھومنے سے روک دیا  5- اس نے کیمرے کو بے رنگ کر دیا  6- اس نے ریڈیو کو خاموش کر دیا  7- اس نے ٹارچ بند کر دی  8- اس نے آئینہ کو ناکام بنادیا  9- اخبارات، رسالے اور کتابیں پھاڑ ڈالیں  10- ویڈیو گیم تباہ کر دیے  11- جیب والا پرس تباہ کر دیا  12- ڈیسک کیلنڈر اور نوٹ چھین لیے  13- کریڈٹ کارڈکوختم کردیا  اور سب سےزیادہ نقصان یہ ہے کہ:  1- اس نے بہت سے جوڑوں کو الگ کر دیا ہے  2- اس نے بہت سے خاندانوں کے خاندانی تعلقات کو توڑ دیا ہے 3- طلباء کو بے پرواہ بنا کرانہیں کامیابی کے راستے سے ہٹا کر ہوا کے راستے میں پروں کی طرح کھڑا کر دیاہے۔ 4- ذاتی تخلیے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بے حیایء اور بے پردگی کو فروغ دیا ہے۔  آہستہ آہستہ، ہم اس بات کی طرف بھی متوجہ ھوج

میری وفات کے بعد

میری وفات کے بعد...  موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔ اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر میں خلافِ معمول خاموش رہا۔ دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔ لاہور والی بیٹی کو میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔ رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی.  میں میری بیوی گھر پر تھے اور ایک ملازم جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔ عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور جو دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔  بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا:  ” یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“ مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غر